عنوان: بیمہ کمپنی کے بھاگ جانے کی صورت میں لوگوں سے پیسے لینے والے شخص سے ضمان لینے کا حکم (9970-No)

سوال: ایک شخص بیمہ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اور کمپنی میں پیسے جمع کروا کر لوگوں کا بیمہ کرواتے ہیں، یہ بیمہ کمپنی سب کے پیسے لے کر بھاگ گٸی ہے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اب یہ پیسے لوگوں کو یہ شخص دیگا؟

جواب: چونکہ یہ شخص کمپنی کا ملازم ہے، اس نے پیسے اپنے لیے نہیں تھے، بلکہ کمپنی کیلئے لیے تھے، اس لیے یہ شخص ضامن نہیں ہوگا، البتہ اگر اس شخص نے اپنی ذمہ داری پر بیمہ کمپنی کو پیسے دلوائے تھے یا یہ ثابت ہوجائے کہ کمپنی کے فراڈ کا اسے علم تھا اس کے باوجود اس نے کمپنی کے نام پر لوگوں سے پیسے لیے تو پھر ایسی صورت میں یہ شخص ضامن ہوگا۔
تاہم واضح رہے کہ مروجہ بیمہ سود اور غرر جیسی خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اس کے بجائے مستند علمائے کرام کی نگرانی میں کام کرنے والی تکافل کمپنیوں سے سہولت حاصل کی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح المجلة للاتاسی: (444/2، ط: رشیدیة)
ولو بعث رجلا لیستقرض لہ الف درهم من آخر فاقرضه فضاع فی یده ان قال الرسول أَقرِض فلانا المرسل فهی للمرسل و علیه الضمان، و لو قال الرسول اقرضنی لفلان المرسل فاقرضه و ضاع فی یده، فعلی الرسول۔۔۔ و ان اخرج الوکیل بالاستقراض الکلام مخرج الرسالة یقع القرض للآمر.

الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي: (3423/5، ط: دار الفکر)
أما التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعاً، وهو رأي أكثر فقهاء العصر، وهو ما قرره المؤتمر العالمي الأولي للاقتصاد الإسلامي في مكة المكرمة عام (1396ه/1976م)، وسبب عدم الجواز يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا.

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 444 Nov 23, 2022
bima / bema company k bhag jane / janey ki sorat me / mein logo se / say pesay lene wale shakhs se zaman lene ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.