سوال:
میں نے تہجد کے وقت تہجد کی نیت کیے بغیر نفل نماز پڑھی تو کیا مجھے تہجد پڑھنے کا بھی ثواب ملے گا؟ نیز اس وقت وتر پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: 1) واضح رہے کہ تہجد کی نماز سنتِ غیر مؤکدہ ہے، لہذا تہجد کی نماز سنت غیر مؤکدہ یا نفل، دونوں طرح کی نیتوں سے ادا کی جا سکتی ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں نفل کی نیت سے پڑھی گئی نماز پر تہجد کا ثواب ملے گا۔
2) جس شخص کو تہجد کے وقت اٹھنے کی قوی امید ہو، اس کے لئے وتر کی نماز تہجد کے وقت پڑھنا افضل ہے، اور جس کو تہجد میں اٹھنے کی قوی امید نہ ہو تو اس کیلئے عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سونا اولی اور بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبي ﷺ في اللیل و ان الوتر رکعة، رقم الحدیث: 755)
عن جابر قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ﷺ : ’’ من خاف أن لا یقوم من آخر اللیل فلیوتر أوله ، ومن طمع أن یقوم آخرہ فلیوتر آخر اللیل، فإن صلاۃ آخر اللیل مشهودۃ ، وذلك أفضل ‘‘ .
الدر المختار: (24/2، ط: دار الفکر)
وَقَدْ تَرَدَّدَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ فِي كَوْنِهِ سُنَّةً أَوْ مَنْدُوبًا، لِأَنَّ الْأَدِلَّةَ الْقَوْلِيَّةَ تُفِيدُ النَّدْبَ؛ وَالْمُوَاظَبَةُ الْفِعْلِيَّةُ تُفِيدُ السُّنِّيَّةَ لِأَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا وَاظَبَ عَلَى تَطَوُّعٍ يَصِيرُ سُنَّةً؛ لَكِنَّ هَذَا بِنَاءً عَلَى أَنَّهُ كَانَ تَطَوُّعًا فِي حَقِّهِ، وَهُوَ قَوْلُ طَائِفَةٍ. وَقَالَتْ طَائِفَةٌ: كَانَ فَرْضًا عَلَيْهِ فَلَا تُفِيدُ مُوَاظَبَتُهُ عَلَيْهِ السُّنِّيَّةَ فِي حَقِّنَا لَكِنَّ صَرِيحَ مَا فِي مُسْلِمٍ وَغَيْرِهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ كَانَ فَرِيضَةً ثُمَّ نُسِخَ هَذَا خُلَاصَةُ مَا ذَكَرَهُ ” وَمُفَادُهُ اعْتِمَادُ السُّنِّيَّةِ فِي حَقِّنَا لِأَنَّهُ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَاظَبَ عَلَيْهِ بَعْدَ نَسْخِ الْفَرْضِيَّةِ، وَلِذَا قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَالْأَشْبَهُ أَنَّهُ سُنَّة ۔
البحر الرائق: (56/2، ط: دار الكتاب الاسلامي)
بَقِيَ أَنَّ صِفَةَ صَلَاةِ اللَّيْلِ فِي حَقِّنَا السُّنَّةُ أَوْ الِاسْتِحْبَابُ يَتَوَقَّفُ عَلَى صِفَتِهَا فِي حَقِّهِ – صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِنْ كَانَتْ فَرْضًا فِي حَقِّهِ فَهِيَ مَنْدُوبَةٌ فِي حَقِّنَا لِأَنَّ الْأَدِلَّةَ الْقَوْلِيَّةَ فِيهَا إنَّمَا تُفِيدُ النَّدْبَ وَالْمُوَاظَبَةَ الْفِعْلِيَّةَ لَيْسَتْ عَلَى تَطَوُّعٍ لِتَكُونَ سُنَّةً فِي حَقِّنَا وَإِنْ كَانَتْ تَطَوُّعًا فَسُنَّةٌ لَنَا وَقَدْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي ذَلِكَ ثُمَّ ذَكَرَ الْأَدِلَّةَ لِلْفَرِيقَيْنِ وَاَلَّذِي حَطَّ عَلَيْهِ كَلَامَهُ أَنَّ الْفَرْضِيَّةَ مَنْسُوخَةٌ كَمَا قَالَتْهُ عَائِشَةُ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا – فِي حَدِيثٍ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيُّ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی