عنوان: بیوی کو نیت اور مخاطب کیے بغیر اصل نام بدل کر کسی اور نام سے طلاق دینے کا حکم (9981-No)

سوال: ایک شخص تھکا ہوا گھر آیا اور اپنے سوتیلے بچہ کے تنگ کرنے پر بیوی کی طرف نسبت اور چہرہ کیے بغیر بلا ‏اختیار اس کی زبان سے یہ نکلا کہ گلابو میں تجھے طلاق دیتا ہوں، گلابو میں تجھے طلاق دیتا ہوں، گلابو میں تجھے طلاق دیتا ‏ہوں اس کے منہ سے نکل گیا، حالانکہ گلابو بیوی کا نام نہیں ہے اور بیوی سے اس وقت کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں تھا ‏اور طلاق دینے کی نیت بھی نہیں تھی، اب شوہر بہت پریشان ہے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا ہے، براہ کرم رہنمائی ‏فرمائیں کہ اس صورتحال میں طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
تنقیح:‏
سائل نے زبانی وضاحت کی کہ اس کی بیوی کااصل نام سویر ا ہے ، جبکہ گلابو ایک خاتون کا نام ہے جو میرے ‏ساتھ میرے عملیات کے کام کے زمانہ میں ہوا کرتی تھی اور وہ میرے خواب میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی کئی ‏دفعہ میں نے اس کا نام لیا ہے ،لیکن بیوی کو اس نام سے کبھی نہیں پکارا اور نہ ہی کسی اور نے کبھی اسے اس نام سے ‏پکاراہے،اس وقت میری نیت نہ اپنی بیوی کی تھی نہ کوئی اور عورت تھی اور لڑائی جھگڑا بھی اس سے نہیں تھا،بلکہ ‏لڑائی اس کے بیٹے (جومیرا سوتیلا بیٹاہے کیوں کہ بیوہ عورت سے شادی ہوئی تھی)سے تھی اور اس وقت بیوی ‏دوسرے کمرے میں تھی میں کسی اور کمرے میں تھا ،ہاں کمرے کا دروازہ کھلا ہواتھا اور وہ میری یہ ساری باتیں سن ‏رہی تھی۔

جواب: صورتِ مسئولہ میں اگرچہ شوہر نے اضافت "تجھے طلاق" کے ساتھ طلاق کے الفاظ کہے ہیں، لیکن سوال ‏میں مذکور وضاحت کے مطابق اُس وقت اُس نے بیوی کو طلاق دینے کی نیت نہیں کی اور اس کا خیال بھی نہیں ‏تھا تو چونکہ اس نے نام بدل کر ایک ایسا وصفی نام بولا ہے جس سے اس کی بیوی معروف نہیں ہے اور نہ ہی اس نے ‏کبھی ان الفاظ سے اسے پکارا ہے، بلکہ شوہر کی وضاحت کے مطابق یہ نام اس کے جاننے والی کسی اور خاتون کا ہے اور ‏ممکن ہے کہ اس کی چلتی ہوئی عادت کی وجہ سے اس وقت بھی اس خاتون کے خیالات کے غلبہ کی وجہ سے اس کا نام ‏لیا ہو، نیز اس وقت بیوی اس کی مخاطب بھی نہیں تھی (اگرچہ کمرے کا دروازہ کھلا ہونے کی وجہ سے اس نے الفاظ ‏سنے ہیں لیکن ہر سننے والا مخاطب نہیں کہلاتا، بلکہ خطاب متکلم کے قصد اور ارادے سے ہوتا ہے) اس لئے اس ‏تمام صورتحال میں"گلابو" اور اس کے مصداق و مسماۃ کی طرف صریح اضافت موجود ہے، مذکورہ شخص کی بیوی کی ‏طرف اضافت نہیں ہے، لہٰذا اس قرینہ اور مذکورہ دیگر قرائن کی وجہ سے اس شخص کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ‏ہوئی، تاہم طلاق کے معاملہ میں آئندہ احتیاط کرنا اور اس قسم کے الفاظ سے بچنا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:‏

البحر الرائق: (3 / 273، ط: دارالكتاب الاسلامي)‏
وفي المحيط الأصل أنه متى وجدت النسبة وغير اسمها بغيره لا يقع لأن ‏التعريف لا يحصل بالتسمية متى بدل اسمها لأن بذلك الاسم تكون امرأة ‏أجنبية ولو بدل اسمها وأشار إليها يقع ثم قال ولو قال امرأتي بنت صبيح أو ‏بنت فلان التي في وجهها خال طالق ولم يكن لها خال وكذا التي هي عمياء أو ‏زمنى وهي بصيرة صحيحة طالق طلقت وذكر العمى، والزمن باطل لأنه عرف ‏امرأته بالنسبة ووصفها بصفة فصح التعريف ولغت الصفة ولو قال امرأتي عمرة ‏أم ولدي هذه الجالسة طالق ولا نية له، والجالسة غيرها وليست بامرأته لم تطلق ‏لأنه سماها وأشار، والعبرة للإشارة لا للتسمية اه.‏

الفتاوى الهندية: (1 / 358، ط: دار الفکر)‏
قال امرأته عمرة بنت صبيح طالق وامرأته عمرة بنت حفص ولا نية له لا تطلق ‏امرأته فإن كان صبيح زوج أم امرأته وكانت تنسب إليه وهي في حجره فقال ‏ذلك وهو يعلم نسب امرأته أو لا يعلم طلقت امرأته ولا يصدق قضاء وفيما ‏بينه وبين الله تعالى لا يقع إن كان يعرف نسبها وإن كان لا يعرف يقع أيضا ‏فيما بينه وبين الله تعالى وإن نوى امرأته في هذه الوجوه طلقت امرأته في القضاء ‏وفيما بينه وبين الله تعالى كذا في خزانة المفتين.‏

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالإفتاء الإخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 678 Nov 28, 2022
biwi / zoja ko niat / niyat or mukhatib kiye baghair asal naam badal kar kisi or naam se / say talaq dene / deney ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.