سوال:
ایک شخص تھکا ہوا گھر آیا اور اپنے سوتیلے بچہ کے تنگ کرنے پر بیوی کی طرف نسبت اور چہرہ کیے بغیر بلا اختیار اس کی زبان سے یہ نکلا کہ گلابو میں تجھے طلاق دیتا ہوں، گلابو میں تجھے طلاق دیتا ہوں، گلابو میں تجھے طلاق دیتا ہوں اس کے منہ سے نکل گیا، حالانکہ گلابو بیوی کا نام نہیں ہے اور بیوی سے اس وقت کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں تھا اور طلاق دینے کی نیت بھی نہیں تھی، اب شوہر بہت پریشان ہے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا ہے، براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اس صورتحال میں طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
تنقیح:
سائل نے زبانی وضاحت کی کہ اس کی بیوی کااصل نام سویر ا ہے ، جبکہ گلابو ایک خاتون کا نام ہے جو میرے ساتھ میرے عملیات کے کام کے زمانہ میں ہوا کرتی تھی اور وہ میرے خواب میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی کئی دفعہ میں نے اس کا نام لیا ہے ،لیکن بیوی کو اس نام سے کبھی نہیں پکارا اور نہ ہی کسی اور نے کبھی اسے اس نام سے پکاراہے،اس وقت میری نیت نہ اپنی بیوی کی تھی نہ کوئی اور عورت تھی اور لڑائی جھگڑا بھی اس سے نہیں تھا،بلکہ لڑائی اس کے بیٹے (جومیرا سوتیلا بیٹاہے کیوں کہ بیوہ عورت سے شادی ہوئی تھی)سے تھی اور اس وقت بیوی دوسرے کمرے میں تھی میں کسی اور کمرے میں تھا ،ہاں کمرے کا دروازہ کھلا ہواتھا اور وہ میری یہ ساری باتیں سن رہی تھی۔
جواب: صورتِ مسئولہ میں اگرچہ شوہر نے اضافت "تجھے طلاق" کے ساتھ طلاق کے الفاظ کہے ہیں، لیکن سوال میں مذکور وضاحت کے مطابق اُس وقت اُس نے بیوی کو طلاق دینے کی نیت نہیں کی اور اس کا خیال بھی نہیں تھا تو چونکہ اس نے نام بدل کر ایک ایسا وصفی نام بولا ہے جس سے اس کی بیوی معروف نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کبھی ان الفاظ سے اسے پکارا ہے، بلکہ شوہر کی وضاحت کے مطابق یہ نام اس کے جاننے والی کسی اور خاتون کا ہے اور ممکن ہے کہ اس کی چلتی ہوئی عادت کی وجہ سے اس وقت بھی اس خاتون کے خیالات کے غلبہ کی وجہ سے اس کا نام لیا ہو، نیز اس وقت بیوی اس کی مخاطب بھی نہیں تھی (اگرچہ کمرے کا دروازہ کھلا ہونے کی وجہ سے اس نے الفاظ سنے ہیں لیکن ہر سننے والا مخاطب نہیں کہلاتا، بلکہ خطاب متکلم کے قصد اور ارادے سے ہوتا ہے) اس لئے اس تمام صورتحال میں"گلابو" اور اس کے مصداق و مسماۃ کی طرف صریح اضافت موجود ہے، مذکورہ شخص کی بیوی کی طرف اضافت نہیں ہے، لہٰذا اس قرینہ اور مذکورہ دیگر قرائن کی وجہ سے اس شخص کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم طلاق کے معاملہ میں آئندہ احتیاط کرنا اور اس قسم کے الفاظ سے بچنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (3 / 273، ط: دارالكتاب الاسلامي)
وفي المحيط الأصل أنه متى وجدت النسبة وغير اسمها بغيره لا يقع لأن التعريف لا يحصل بالتسمية متى بدل اسمها لأن بذلك الاسم تكون امرأة أجنبية ولو بدل اسمها وأشار إليها يقع ثم قال ولو قال امرأتي بنت صبيح أو بنت فلان التي في وجهها خال طالق ولم يكن لها خال وكذا التي هي عمياء أو زمنى وهي بصيرة صحيحة طالق طلقت وذكر العمى، والزمن باطل لأنه عرف امرأته بالنسبة ووصفها بصفة فصح التعريف ولغت الصفة ولو قال امرأتي عمرة أم ولدي هذه الجالسة طالق ولا نية له، والجالسة غيرها وليست بامرأته لم تطلق لأنه سماها وأشار، والعبرة للإشارة لا للتسمية اه.
الفتاوى الهندية: (1 / 358، ط: دار الفکر)
قال امرأته عمرة بنت صبيح طالق وامرأته عمرة بنت حفص ولا نية له لا تطلق امرأته فإن كان صبيح زوج أم امرأته وكانت تنسب إليه وهي في حجره فقال ذلك وهو يعلم نسب امرأته أو لا يعلم طلقت امرأته ولا يصدق قضاء وفيما بينه وبين الله تعالى لا يقع إن كان يعرف نسبها وإن كان لا يعرف يقع أيضا فيما بينه وبين الله تعالى وإن نوى امرأته في هذه الوجوه طلقت امرأته في القضاء وفيما بينه وبين الله تعالى كذا في خزانة المفتين.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص، کراچی