سوال:
ایک آدمی اسٹام فروش کے پاس گیا اس کو جا کر کہا کہ میں نےگھر والی کوطلاق دینی ہے مجھے طلاق نامہ کا اسٹام پیپر بنادو، اسٹام پیپر والے نے طلاق نامہ بنا کر کہا کہ دیکھ کر سائن کردو، اس نے بس دیکھ کر سائن کر دیا، دو گواہوں نے بھی دستخط کر دیے، یہ ساری کاروائی بیوی کو نہیں بتائی اور اب چھ ماہ بعد بیوی کو گھر لے آیا ہے۔ اس ساری تفصیل کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں جبکہ شوہر کو معلوم تھا کہ اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ جس طرح طلاق کا لفظ بولنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح لکھنے سے یا لکھے ہوئے پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں چونکہ اس نے طلاق نامہ بنانے کا خود حکم دیا تھا اور بعد میں خود اس طلاق نامہ پر اپنے اختیار سے دستخط بھی کر دیے تھے، لہذا ایسی صورت میں تينوں طلاقيں واقع ہو کر ان کا نکاح ختم ہوگیا ہے اور حرمت مغلظہ ثابت ہوچكی ہے۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوقِ زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَo
صحیح البخاري: (کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، رقم الحدیث: 5260، 412/3، دار الکتب العلمیة، بیروت)
حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن رفاعة طلقني فبت طلاقي وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي وإنما معه مثل الهدبة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته".
رد المحتار: (مطلب فی الطلاق بالکتابة، 246/3، 247، ط: دار الفکر)
ولو قال للكاتب اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل ابعث به إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اه ملخصا
الفتاوی الهندية: (الفصل السادس، 378/1، ط: دار الفکر)
وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع كذا في فتاوى قاضي خان
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی