عنوان: تین طلاقیں دینے کے باوجود بیوی کو ساتھ رکھنے کا حکم(9989-No)

سوال: السلام علیکم ! کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان کرام اس بارے میں کہ ایک شخص نے مورخہ 2019-06-27 کو اپنے بہن بھائیوں کی موجودگی میں پڑھ کر سنا کر اپنی زوجہ مسماۃ کو اسٹامپ پیپر پر تحریری تین طلاقیں ایک وقت میں دے دیں اور برادری کے کچھ گھروں میں اس شخص نے خود جاکر اور کہیں فون کر کے خود بتایا کہ میں نے اپنی زوجہ کو طلاق دیدی ہے اور سب سے اظہار افسوس بھی وصول کرتا رہا، تقریبا 20 دن طلاق پر قائم رہنے کے بعد 17-07-2019 کو ایک مفتی صاحب سے جھوٹ اور غلط بیانی سے فتویٰ حاصل کر کے اپنی مطلقہ کو دوبارہ آباد کر لیا، اس اقدام پر برادری اور طلاق کی مجلس میں موجود بہن بھائی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، ایک حصہ مخالفت میں کہ (ہمارے سامنے طلاق دی ہے) ہم اس آبادی کو نہیں مانتے اور ایک حصہ بھر پور حمایت میں کہ جب مفتی صاحب نے آبادی کی اجازت لکھ دی ہے تو ہم اس کی حمایت بھی کرتے ہیں اور اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔
فتویٰ جھوٹ بول کر لیا گیا ہے یا جھوٹا حلف دے کر لیا گیا ہے، یہ معاملہ اللہ پر ہے، ہم مسلمان ہیں تو ہم اس کا حلف تسلیم کرتے ہیں، اس موقف پر انھوں نے اس جوڑے کے ساتھ مکمل تعلقات اور میل جول قائم کر لیا۔ بعد ازاں اس شخص کی مخالف برادری (جس میں اس کی تمام اولاد بھی شامل تھی) نے تمام تر صورت حال متعدد مفتیان کرام کے سامنے پیش کی، جس پر سب مفتیان کرام نے اس آبادی کو ناجائز اور حرام قرار دیتے ہوئے اس جوڑے کے ساتھ بائیکاٹ کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو بھی اس جوڑے کی حقیقت جان لینے کے بعد ان سے تعلقات رکھے گا وہ ان کا شریک جرم ہوگا۔
یہ تمام فتاوی جات اس شخص کو اور اس کی حمایتی برادری کو پڑھائے گئے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم صرف اس شخص کے حلف اور اس کے لئے گئے فتوی کو مانتے ہیں"۔ انتہائی انفرادی اور اجتماعی کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح اس فعل حرام کو روکا جاسکے لیکن روکا نہ جاسکا اور برادری کے دونوں حصوں میں بائیکاٹ ہوگیا۔
اب جبکہ قریباً ایک سال پہلے اس شخص کا انتقال ہو چکا ہے، تمام تر تحریری مواد کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں ارشاد فرما دیں:
۱) طلاق واقع ہوئی تھی یا نہیں؟
۲) جو لوگ اس کی حمایت اور سر پرستی کرتے رہے اور اس کی خوشی اور غمی میں شریک رہے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ ہم حق پر ہی تھے اور وہ بھی حق پر تھا، ان کے لئے کیا حکم ہے؟
۳) ان لوگوں سے خود جا کر صلح کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر وہ صلح کے لئے آجائیں تو کس طریقہ پر صلح کی جائے؟
۴) کچھ لوگوں نے اس کے حمایتیوں کو غلط سمجھتے ہوئے بھی برادری میں جوڑ کی وجہ سے حمایتیوں سے صلح کر لی ہے، ان صلح کرنے والوں کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب: سوال میں ذکر کرده تفصیل اگر واقعتاً درست ہے کہ شوہر نے بہن بھائیوں کی موجودگی میں اپنی بیوی کو تحریری طور پر تین طلاقیں دے دی تھی اور اس کے بہن بھائی اس کی گواہی بھی دیتے آرہے ہیں تو اس شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، جس کا حکم یہ ہے کہ ان میاں بیوی کا آپس ميں غیر شرعی طریقے سے رہنا ناجائز اور حرام تھا اور اس کے بعد شوہر کا خلاف واقع بیان دے کر اپنے حق میں فتوی حاصل کرنا بھی ناجائز فعل تھا۔
لہذا اس دوران جن لوگوں نے حقیقتِ حال جانتے بوجھتے ہوئے شوہر کی تائید اور حمایت کی ہے، وہ بھی اس گناہ کے کام میں معاونت کی وجہ سے گناہ گار ہوئے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ صدق دل سے توبہ و استغفار کریں اور اپنے اس فعل پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کریں، البتہ جن لوگوں نے محض شوہر کے حلف کی بنیاد پر ناسمجھی اور غلط فہمی میں ساتھ دیا تھا، وہ معذور سمجھے جائیں گے، لیکن اب حقیقت حال واضح ہونے کے بعد ان کا اپنے موقف پر قائم رہنا درست نہیں ہے۔
تاہم! اب چونکہ شخص مذکور کا انتقال ہوچکا ہے، لہذا اس مسئلے کو بنیاد بنا کر بحث و مباحثہ کرنا اور اس کی وجہ سے آپس ميں قطع تعلقی کرنا درست عمل نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الآية: 230)
فَاِنْ طَلَّقَها فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ ... الخ

سنن النسائي: (کتاب الطلاق، الثلاث المجموعة و ما فیه من التغلیظ، رقم الحدیث: 3401)
"عن محمود بن لبید قال:أخبر رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطلیقات جمیعاً، فقام غضباناً، ثم قال: أیلعب بکتاب اللّٰه وأنا بین أظهرکم ،حتی قام رجل وقال: یا رسول اللّٰه! ألا أقتله؟".

شرح النووی: (70/10، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته: أنت طالق ثلاثا، فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث.

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1907، ط: مصطفى البابي)
عن أبي سلمة قال: اشتكى أبو الدرداء فعاده عبد الرحمن بن عوف فقال: خيرهم واوصلهم ما علمت ابا محمد فقال عبد الرحمن بن عوف: سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول: قال الله: أنا الله وأنا الرحمن، خلقت الرحم وشققت لها من إسمي فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 642 Nov 29, 2022
teen talaqein dene k bawajod biwi kw sath akhne ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.