زکوۃ کے شرعی مسائل
(دارالافتاء الاخلاص)

زکوۃ کے شرعی مسائل

1-قرآن وحدیث کی روشنی میں زکوٰۃ کے فضائل:


(الف){إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} (البقرة:277)
ترجمہ:بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ نیک کام کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم۔

(ب)نبی پاک ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا:ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکاۃفرض کی ہے، مالداروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔ (سنن الترمذی،حدیث نمبر625)

(ج)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، ان میں سے ایک زکوۃ ہے۔(صحیح بخاری، 13/1)

قرآن وحدیث کی روشنی میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے متعلق وعیدیں:

(الف){وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ} (التوبہ:35)
ترجمہ:اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے ،جس دن اس خزانے کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو ۔

(ب)رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہےکہ :جس کو اللہ تعالی نے مال دیا ہو اور اس شخص نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی ہو تو قیامت کے روز زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا مال و دولت گنجا سانپ (یعنی انتہائی زہریلا ) بنا کر ان پر مسلط کردیاجائے گا، جو انہیں مسلسل ڈستا رہے گا اور کہے گا:
میں تیرامال ہوں، میں تیراخزانہ ہوں۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث 1403)

(ج)عن عمر بن الخطاب رضی الله تعالیٰ عنه قال: { مَاتَلَفَ مَالٌ فِی بَرِّ وَّ لاَ بَحْرٍ اِلَّا بِحَبْسِ الزكوة.}
ترجمہ:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ خشکی اور تری میں جو مال تلف (ہلاک) ہوتا ہے وہ زکوۃ نہ دینے ہی سے تلف (ہلاک) ہوتا ہے۔ (الترغیب والترھیب،15/2)

(2)زکوۃ کی لغوی و اصطلاحی تعریف:
لغوی تعریف: عربی زبان میں "لفظِ زکوۃ" پاکیزگی، بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
شریعت کی اصطلاح: میں زکوۃ مال کے اس حصہ کو کہا جاتا ہے، جس کا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا انسان پر فرض کیا گیا ہے، یعنی اپنے مال میں سے شریعت کی جانب سے مقرر کردہ ایک خاص مقدار کا کسی مسلمان فقیر و غریب غیر سید کو خالص اللہ کی رضا کے لیے بلا عوض مالک بنا دینا۔
(شامی، 257/2۔258، ط سعید)

(3) زکوۃ کا نصاب:

اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو، یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایسے شخص پر سال پورا ہونے پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔ (بدائع الصنائع، 16/2۔18)

(4)کیا انکم ٹیکس دینے سے زکوۃ ادا ہوجاتی ہے؟

انکم ٹیکس ادا کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی، بلکہ کسی مستحقِ زکوۃ کو بلا کسی عوض ڈھائی فیصد کے حساب سے رقم ادا کرنے سے زکوۃ ادا ہوگی۔(شامی، 257/2۔258، ط سعید)

(5) جی پی فنڈ پر زکوۃ کا حکم:

اگر جنرل پراویڈنٹ فنڈ کی کٹوتی جبری ہے، تو جب تک فنڈ کی رقم ملازم کو وصول نہ ہوجائے، اس وقت تک اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی اور رقم وصول ہونے کے بعد بھی گذشتہ سالوں کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی، ایسی رقم پر زکوۃ کا وجوب اس وقت سے شروع ہوتا ہے، جس وقت سے وہ رقم وصول ہوئی ہے، البتہ جو جی پی فنڈ جبری نہ ہو، بلکہ ملازم نے اپنے اختیار سے اس کے لیے رقم کٹوائی ہو، تو اس معاملے میں احتیاط اسی میں ہے کہ رقم وصول ہونے پر گذشتہ سالوں کی بھی زکوۃ ادا کردی جائے۔(الہندیہ، 175/1 ط رشیدیہ)

(6) کار، بس، رکشہ اور ٹیکسی پر زکوۃ:

اگر ذکر کردہ سواریاں ذاتی استعمال کے لیے ہوں، تو ان پر زکوۃ نہیں ہے، اور اگر کرایہ پر دی گئی ہوں، تو اس صورت میں اگر ان سے حاصل ہونے والی آمدنی سال کے آخر تک موجود رہے اور وہ تنہا یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر ہو تو اس پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہے، اور اگر کرایہ کی رقم سال کے آخر تک نہیں بچتی، بلکہ خرچ ہوجاتی ہے، تو اس صورت میں اس رقم پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
(الھندیہ، 172/1)

(7) فیکٹری کی مشینری پر زکوۃ:

فیکٹری کی مشینری پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی، البتہ اس مشینری سے حاصل ہونے والی آمدنی اگر سال کے آخر میں بچی ہوئی ہو اور تنہا یا دوسرے نصاب کے ساتھ مل کر نصاب تک پہنچتی ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔(شامی،262/2، ط سعید)

(8)تجارتی مال کی زکوۃ میں قیمتِ خرید کا اعتبار ہوگا یا قیمتِ فروخت کا؟

تجارتی مال کی زکوۃ قیمتِ فروخت کے اعتبار سے ادا کی جائے گی۔(ھندیۃ، 179/1، ط رشیدیہ)

(9)کونسے زیورات میں زکوۃ واجب ہوتی ہے؟

زیورات استعمال میں ہوں یا ویسے ہی رکھے ہوں، ہر صورت میں اگر نصاب کے برابر ہوں اور ان پر سال گذر جائے تو ان پر زکوۃ واجب ہوگی۔(الجوہرۃ النیرۃ، ص157، میر محمد)

(10)کیا بینک والوں کے زکوۃ کاٹنے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی؟

بینک والے اگر اپنے صارفین کی اجازت سے ان کی جمع شدہ رقم میں سے زکوۃ کاٹ کر مستحقینِ زکوۃ تک پہنچا دیتے ہوں، تو بینک والوں کا صارفین کی طرف سے وکیل بن کر ان کی طرف سے زکوۃ ادا کرنے کی وجہ سے زکوۃ ادا ہو جائے گی، البتہ اگر کوئی صارف مطمئن نہ ہو، تو وہ بینک والوں کو زکوۃ کی رقم کاٹنے سے منع کردے، اور ان کو ایک حلف نامی لکھ کر دیدے، تو بینک والے اس کی زکوۃ نہیں
کاٹیں گے۔ (بدائع الصنائع،53/2)

(11)کیا رفاہی ادارے زکوۃ وصول کرکے کسی بھی مریض پر خرچ کرسکتے ہیں؟

واضح رہے کہ زکوۃ کی رقم کو مستحقینِ زکوۃ کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، جب تک مستحقین کی ملکیت میں رقم دے کر ان کو با اختیار نہ بنادیا جائے، اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوگی، لہذا فلاحی اداروں کے لئے لازم ہے کہ وہ رقم کی حیثیت لازمی طور پر معلوم کرلیں، اگر زکوۃ کی رقم ہے تو اس کو کسی مستحق کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، اس کو رفاہی کاموں میں براہ راست استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر نفلی صدقہ ہے تو بلا تملیک اس کو رفاہی کاموں اور علاج و معالجہ وغیرہ تمام امور میں استعمال کرنا جائز ہے۔ زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر کسی مستحق کی ملکیت میں دینا بھی درست ہے، مگر ایسی چیز خریدنا جائز نہیں، جو کسی ایک مستحق کی ملکیت میں نہ آئے، لہذا ایمبولینس کی گاڑی وغیرہ زکوۃ کی رقم سے خریدنا جائز نہیں ہے۔ (سورۃ التوبۃ، الایۃ60)(قاضی خان، 128/1)

(12)رفاہی اداروں اور اسپتالوں میں زکوۃ دینا:

اگر رفاہی ادارے اور اسپتال والے زکوۃ کی رقم کو صرف مسلمان فقیر و غریب مستحق لوگوں میں صرف کرتے ہوں یا ان کو دوا دیتے ہوں، تو ان کو زکوۃ دینا جائز ہے۔اور اگر یہ لوگ زکوۃ کی رقم مستحق اور غیر مستحق دونوں کو دیتے ہوں یا ملازمین کی تنخواہ اور بل وغیرہ زکوۃ سےادا کرتے ہوں تو ایسے رفاہی اداروں اور اسپتالوں کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔(شامی، 256/2، ط سعید) (قاضی خان،128/1)

(13)نابالغ کو زکوۃ دینا:

اگر نابالغ بچہ کا باپ مالدار ہے تو نابالغ بچہ کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے، اور اگر باپ زکوۃ کا مستحق ہے، تو ایسا نابالغ بچہ جو سمجھ دار ہو اور مال کی پہچان رکھتا ہو، اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔ ( التاتارخانیہ، 272/2، ط: ادارۃ القرآن)(شامی، کتاب الزکوۃ، مطلب فی الحوائج الاصلیۃ، 348/2، ط سعید)

(14)زکوۃ کی رقم سے دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلانے کا حکم:

واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ زکوة کی رقم مستحق کو تملیکا (مالک بنا کر) دی جائے ،تاکہ وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کر سکے۔ چونکہ دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلانے کی صورت میں کھانا ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ وہ حسب طلب کھالیں، باقی بچا ہوا کھانا انھیں اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، جسے عربی میں "اباحت" کہتے ہیں، اس لیے اس صورت میں "تملیک" نہ پائے جانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔نیز اس صورت میں مستحق افراد کی تعیین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔البتہ اگر مستحق زکوٰۃ کو کھانے کے پیکٹ وغیرہ بنا کر اس طرح ان کے حوالے کردیے جائیں کہ وہ چاہیں تو ابھی کھا لیں یا اپنے ساتھ لے جائیں، اس صورت میں زکوۃ ادا ہو جائے گی۔(البحر الرائق، کتاب الزکوۃ، 201/2، ط سعید)

(15)سید شخص کی غیر سید بیوی کو زکوۃ دینے کا حکم:

سید شخص کی بیوی اگر غیر سید ہو اور مستحقِ زکوۃ بھی ہو تو اسے زکوۃ دینا جائز ہے، زکوۃ کی رقم وصول کرنے کے بعد وہ اس رقم کی مالک ہوگی، چنانچہ وہ اپنے اختیار سے اس رقم کو شوہر و بچوں کی دیگر ضروریات میں بھی خرچ کرسکتی ہے۔(البحر الرائق، کتاب الزکوۃ، 201/2، ط سعید)

(16)کیا میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

میاں بیوی کے منافع چونکہ مشترک ہوتے ہیں، اس لیے میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔(ھندیہ، 189/1، ط رشیدیہ)

(17)کیا اپنے اصول (دادا،دادی،نانا،نانی) و فروع (اولاد، پوتا،پوتی،نواسا،نواسی، وغیرہ )کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

زکوۃ اپنے اصول یعنی دادا، دادی، نانا، نانی، یا اپنی فروع یعنی اپنی اولاد، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی کو نہیں دے سکتے۔(الھدایہ،223/1، ط رحمانیہ)

(18)بہن بھائی کو زکوۃ دینے کا حکم:

اگر کسی کا بھائی یا بہن مستحقِ زکوۃ ہو، تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ اس بھائی یا بہن کے کھانے پینے کے اخراجات زکوۃ دینے والے بھائی کے ساتھ مشترک نہ ہوں، اور اگر کھانے پینے کے اخراجات مشترک ہوں تو پھر زکوۃ دینا جائز نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، 50/2، ط سعید)

(19)پلاٹ، مکان اور دوکان پر زکوۃ:

جو زمین یا گھر رہائش یا کرایہ پر دینے کی نیت سے خریدا گیا ہو ، اس پر شرعاً زکوۃ لازم نہیں ہوتی، اور اگر دوکان اس غرض سے خریدی گئی ہو کہ اس میں کاروبار کیا جائے گا تو اس دوکان پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہو گی، اسی طرح پراپرٹی خریدتے وقت اگر کوئی نیت نہیں کی ہو (کہ اس کو بیچنا ہے یا رہائش اختیار کرنی ہے) تو اس پر بھی زکوۃ نہیں ہے۔البتہ جو پراپرٹی تجارت کی نیت سے لی گئی ہو ،کہ اس کو فروخت کر کے نفع کمایا جائے گا تو ایسی تمام جائیدادوں پر ہر سال ان کی موجودہ قیمت (ویلیو) کا حساب لگا کر اس کا ڈھائی فیصد بطورِ زکوۃ ادا کرنا شرعاً لازم ہوگا۔
(شامی، 262/2- 265، ط سعید)
زکوۃ:
کرایہ پر دی ہوئی دوکان یا مکان کی مالیت پر زکوٰة واجب نہیں ہوتی، البتہ حاصل شدہ کرایہ اگر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تو اس صورت میں اس کرایہ پر زکوٰة واجب ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ،ط دارالفکر بیروت)

(21)قرض دی ہوئی رقم کی زکوٰۃ:

اگر رقم قرض کےطور پر کسی کو دی ہوئی ہے، تو زکوۃ کی ادائیگی قرض دینے والے پر لازم ہے نہ کہ قرض لینے والے پر، البتہ زکوۃ کا ادا کرنا قرض وصول ہونے کے بعد لازم ہو گا، اور اگر قرض وصول ہونے سے پہلے زکوٰۃ ادا کر دی تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، وصول ہونے کے بعد گزشتہ ادا کردہ زکوٰۃ دوبارہ دینا لازم نہیں ہوگی۔(شامی، 11/2، ط سعید)

(22)ایسے قرضے کی زکوٰة کا حکم جس کی وصولیابی کی امید نہ ہو:

واضح رہے کہ جس قرضے کی وصولیابی کی امید بالکل ختم ہو گئی ہو(جس کو عرف عام میں کہا جاتا ہے)اس رقم پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔ البتہ کبھی آئندہ وہ رقم وصول ہو جائے، تو صرف اس سال کی زکوٰة دینی ہو گی جس سال وہ رقم ملی ہے۔ہاں ! اگر وصول یابی میں بالکل مایوسی نہ ہوئی ہو، بلکہ دونوں احتمالات ہوں کہ ملے یا نہ ملے، تو اس کی زکوٰة رقم کے وصول ہونے تک مؤخر کر سکتے ہیں اور اس صورت میں رقم وصول ہونے پر پچھلے سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرنی ہوگی۔(بدائع الصنائع،9/2)

(23)قرض دی ہوئی رقم زکاۃ کی مد میں معاف کرنے سے کیا زکاۃ ادا ہوجائے گی؟

اگر کوئی آدمی قرض لی ہوئی رقم واپس نہیں کر پارہا ہو، اور واپسی کی امید بھی نہیں ہو، اب اگر قرض دینے والا قرض دی ہوئی رقم کو زکوۃ کی نیت کرکے چھوڑ دے، تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی، کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی کے وقت یا زکوۃ میں دیے جانے والے مال کو جدا کرتے وقت زکوۃ کی نیت کرنا ضروری ہے۔البتہ قرض کی رقم کو زکوۃ میں شمار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرض دینے والا زکوۃ کی رقم مقروض کو پورے اختیار کے ساتھ قبضہ دے کر مالک بنا دے، پھر اس سے مطالبہ کر لے کہ میرے قرض کی رقم مجھے واپس کردو، چنانچہ اگر وہ مالک بن کر اپنی خوشی و رضا و رغبت سےقرض کی رقم کو واپس کردے تو اس طرح قرض بھی وصول ہو جائے گا اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی۔
(شامی، 269/1- 270، ط سعید)(الھندیہ، 179/1،ط رشیدیہ)

(24)قسطوں پر لی ہوئی چیز کی بقیہ قسطوں پر زکوۃ:

قسطوں کا قرضہ دین مؤجل ہے اور دین مؤجل زکوۃ واجب ہونے سے مانع نہیں ہے، لھذا اس سلسلہ میں ایک سال کی ادا طلب قسطوں کی رقم منھا کی جائے گی، اس کے بعد بقیہ رقم اگر نصاب کے بقدر تنہا یا دوسرے مال کے ساتھ مل کر پہنچتی ہو، تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔(شامی، کتاب الزکوۃ، 261/2،ط سعید)

(25)شادی کے لیے جمع شدہ رقم اور زیورات پر زکوۃ کا حکم:

شادی کی غرض سے اگر رقم، سونا یا چاندی جمع کیے جائیں تو اس میں بھی زکوۃ واجب ہوگی، البتہ اگر والدین اولاد کو اس مال کا مالک بنا کر واقعی ان کو قبضہ دے دیں، پھر خود اس میں مالکانہ تصرف نہ کریں، تو والدین پر اس مال کی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔ اس صورت میں اگر اولاد نابالغ ہو تو ان پر بھی زیورات وغیرہ کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ہاں! اگر وہ بالغ ہوں اور ان کی ملکیت میں جو مال ہے، وہ نصاب کو بھی پہنچ جائے، یعنی ان کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے بقدر سونا یا کیش یا مالِ تجارت ہو تو ایسی صورت میں اولاد پر زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا، ورنہ نہیں۔(شامی، 690/5- 691، ط سعید)

(26)بیوی کے زیورات کی زکوۃ کس پر واجب ہوگی؟

بیوی کے زیورات کی زکوۃ شرعاً بیوی پر واجب ہے، اور اس کی ادائیگی بھی بیوی کے ذمہ ہے، شوہر کے ذمہ اس کی ادائیگی شرعاً نہیں ہے، ہاں ! اگر بیوی کے کہنے پر شوہر اس کی طرف سے زکوۃ ادا کرے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی اور بیوی پر شوہر کا بڑا احسان ہوگا۔ البتہ اگر شوہر اس کی طرف سے ادا نہ کرے یا ادا کرنا چاہتا ہو، مگر اس کے پاس گنجائش نہ ہو تو بیوی پر خود زکوۃ ادا کرنا لازم ہے، خواہ نقدی زکوۃ میں دے یا زیور کا کچھ حصہ بیچ کر زکوۃ ادا کرے، بہرحال بیوی پر ادائیگی لازم ہے۔(خلاصۃ الفتاوی، کتاب الزکوۃ،235/1، ط رشیدیہ)

(27)زکوۃ کی رقم دوسرے شہر بھجوانا:

زکوۃ کی رقم میں بہتر یہ ہے کہ جہاں آدمی رہ رہا ہو، وہیں کے محتاجوں کو دی جائے، دوسری جگہ منتقلی کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، البتہ زکوۃ پھر بھی ادا ہوجائیگی، لیکن اگر دوسری جگہ کے مسلمان زیادہ مستحق ہوں یا زکوۃ دینے والے کے مستحق رشتہ دار دوسری جگہ ہوں تو پھر مکروہ نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں افضل یہ ہے کہ ان کو دی جائے جو زیادہ مستحق ہوں۔ (البحر الرائق، 250/2، ط سعید)

(28)پرائز بانڈ پر زکوۃ:

پرائز بانڈ کی اصل قیمت یعنی قیمتِ خرید پر زکوۃ واجب ہے، قرعہ اندازی میں نام نکلنے کی صورت میں جو زائد رقم ملتی ہے، وہ لینا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے وہ رقم لے لی تو اس پر زکوۃ واجب نہیں، بلکہ اس رقم کو جہاں سے لیا ہے، اگر وہاں واپس کرنا ممکن ہو، تو وہاں واپس کر دینا ضروری ہے ، اور اگر واپس کرنا ناممکن ہو، تو منافع کی تمام رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر فقیروں پر صدقہ کرنا لازم ہے۔(شامی، 291/2ط سعید)(شامی، 99/5 ط سعید)

(29)فقیر سمجھ کر زکوۃ دیدی، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مالدار ہے:

اگر کسی آدمی کو فقیر اور مستحق سمجھ کر زکوۃ دیدی، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ زکوۃ کا مستحق نہیں تھا، بلکہ مالدار تھا تو دینے والے کی زکوۃ ادا ہو گئی ، زکوۃ دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(شامی، 353/2، ط سعید)

(30)مالک کو اطلاع دیئے بغیر زکوۃ دیدی:

جس آدمی پر زکوۃ واجب تھی، اگر اس کے گھر کے افراد نے زکوۃ کی نیت سے کسی مستحق آدمی کو رقم دیدی تو اس کی دو صورتیں ہیں، اگر مذکورہ صاحبِ نصاب آدمی نے پہلے سے اپنے گھر کے لوگوں کو زکوۃ ادا کرنے کی اجازت دیدی تھی تو اس صورت میں گھر کے لوگوں نے زکوۃ کے رقم سے جو رقم دی ہے، وہ زکوۃ میں ادا ہو جائے گی۔(التاتارخانیۃ، 284/2)
اور اگر مذکورہ آدمی نے پہلے سے گھر والوں کو زکوۃ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، اور گھر کے لوگوں نے زکوۃ کی نیت سے فقیر کو رقم دیدی، اور وہ رقم اب تک اس فقیر کے پاس موجود ہے، اس نے خرچ نہیں کی ہے اور مالک نے زکوۃ کی نیت کر لی تو نیت صحیح ہوگی، اور زکوۃ ادا ہو جائے گی، اور اگر وہ رقم فقیر کے پاس نہیں ہے، بلکہ اس نے خرچ کردی اور مالک نے اب زکوۃ کی نیت کی تو اس نیت کا اعتبار نہیں ہوگا اور زکوۃ نہیں ہوگی، البتہ صدقہ کا ثواب ملے گا۔(الشامی، 268/2 ط سعید)

(31)عورت کے پاس صرف سونا یا چاندی ہو تو زکوۃ کیسے ادا کرے؟

اگر عورت کے پاس صرف ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا صرف ساڑھے باون تولہ چاندی ہو، اور کچھ نقدی وغیرہ نہیں ہو تو اس سونے یا چاندی کا ڈھائی فیصد حصہ دینا لازم ہوگا، چاہے ڈھائی فیصد حصہ بیچ کر اس کی رقم دے یا وہی سونا یا چاندی ڈھائی فیصد زکوۃ میں دیدے۔
(ھندیہ، 175/1 ط رشیدیہ، کوئٹہ)

(32)مہر پر زکوۃ:

مہر کی رقم یا زیور اگر عورت وصول کرلے اور وہ نصاب کے برابر یا زیادہ ہو، تو سال پورا ہونے پر اس کی ڈھائی فیصد زکوۃ بیوی کے ذمہ لازم ہوگی، چاہے بیوی خود ادا کرے یا اس کی اجازت سے شوہر ادا کرے۔(فتح القدیر، کتاب الزکوۃ، 112/2، ط رشیدیہ)

(33)شیئرز پر زکوۃ:

اگر کسی کمپنی کے شیئرز بیچنے کی نیت سے خریدے ہیں، تو شیئرز کی کل موجودہ بازاری قیمت پر زکوة واجب ہوگی، اور اگر شیئرز بیچنے کی نیت سے نہیں خریدے، بلکہ انھیں مستقل طور پر اپنی ملکیت میں رکھنے کا ارادہ ہے یا صرف منافع دینے کے لیے رکھے جائیں، اس صورت میں جس کمپنی کے یہ شیئرز ہوں، اس کمپنی کے اموال دیکھا جائے گا، جتنے فیصد اس کمپنی کے قابلِ زکوۃ اموال، مثلاً خام مال وغیرہ ہونگے، ان پر زکوۃ واجب ہوگی، اور جو اموال کارخانہ کی مشینری، فیکٹری، آفس یا دیگر ناقابل زکوۃ اموال پر خرچ ہوئے ہوں، ان پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔(ھندیۃ، 173/1- 179،ط رشیدیہ)

(34)سید کو زکوۃ دینا، نیز سید کسے کہتے ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: '' یہ صدقات (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیےحلال نہیں ہے۔(صحيح مسلم (2/ 754)لہذا سید کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں اور یہ بڑا اجر وثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعہ آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔جن لوگوں کا سلسلہِ نسب حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت علی یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم تک تحقیقی طور پر پہنچتا ہے اور ان کے نسب نامہ میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے تو وہ سید کہلاتے ہیں، آل رسول کی نسبت سے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔(الھندیۃ، 189/1، ط رشیدیہ)

(35)حرام مال کی زکوۃ:

اگر کسی کا مال خالص حرام ہے تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی، کیونکہ مالِ حرام کا حکم یہ ہے کہ اگر مالک معلوم ہو تو اس کو واپس کردیا جائے ، اور اگر مالک معلوم نہ ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر سارا مال صدقہ کردیا جائے۔ (شامی، 99/5 ط: سعید)
حرام مال کے ذرائع آمدنی اگر مختلف ہوں، (جیسے: رشوت، چوری، غصب اور سود وغیرہ سے حاصل ہونے والی کمائی) اور حلال وحرام اس طور پر مخلوط ہوں کہ تمیز مشکل ہو، جیسا کہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے، اس صورت میں اگر وہ مال بقدرِ نصاب ہے، تو ایسے مال کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہوگا، البتہ اگر حلال و حرام اس طور پر مخلوط ہوں کہ تمیز کرنا ممکن ہو، تو حرام مال کی مقدار کا صدقہ کرنا واجب ہے، اور حلال مال کی مقدار پر زکوۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ بقدرِ نصاب ہو۔(تاتارخانیہ، 218/2،ط قدیمی)

(36) ایڈوانس زکوۃ ادا کرنا:

اگر کوئی شخص سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ کی پیشگی ادائیگی کرنا چاہے تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 1624، ط دار الفکر)

(37)زکوۃ کی رقم سے کنواں کھدوانا یا بورنگ کروانا:

بورنگ اور کنوئیں کی کھدائی میں تملیک نہ پائے جانے کی وجہ سے زکوۃ کی رقم لگانا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے زکوۃ کی رقم لگادی تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی، اتنی زکوۃ دوبارہ ادا کرنا لازم ہوگی۔(ھندیۃ، باب المصرف، ،189/1، ط رشیدیہ)

(38) اپنے پارٹنر کی زکوۃ ادا کرنا:

اگر کسی نے کاروبار میں شریک پارٹنر کی اجازت کے بغیر اس کی طرف سے زکوۃ ادا کردی تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔(الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الزکوۃ، ص 292)

(39) قادیانی کو زکوۃ دینا:

قادیانی کافر اور زندیق ہیں، اس وجہ سے ان کو دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ ان کو کسی بھی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں ہے۔(ھندیۃ، 188/1، ط رشیدیہ)

(40) زانیہ کو زکوۃ دینا:

اگر کسی نے لاعلمی میں کسی مستحق زانیہ کو زکوۃ دیدی تو زکوۃ ادا ہوجائے گی اور ثواب بھی ملے گا، البتہ علم ہونے کی صورت میں ایسی عورت کو زکوۃ و صدقات نہیں دینا چاہیے، ہاں ! اگر اس نے توبہ کرلی ہے اور فقیر ہے تو اس کو زکوۃ و صدقات دینا جائز ہے۔(شامی، 352/2،ط سعید)

والله أعلم بالصواب


Print Views: 3312

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2023.